حضرت خالد بن ولید کی پیدائش 592 عیسوی میں مکہ شہر میں ہوئی
آپ کے والد یعنی ولید کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوا کرتا تھا
دوسرے سردارانے قریش کی طرح حضرت خالد بھی شروع میں اسلام کے شدید مخالف تھے رسول کریم اور آپ پر ایمان لانے والوں کو شدید ناپسند کرتے تھے
اسی مخالفت اور دشمنی کا اثر تھا کہ جب کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں شروع ہوئیں تو حضرت خالد کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی
کہ مسلمان نیست و نابود ہو جائیں
مگر اللّٰہ تعالیٰ کی تو شان ہی نرالی ہے کوئی نہیں جانتا وہ کب کسے ہدایت دے دے اور یہی حضرت خالد بن ولید کے ساتھ ہوا
جب بھی مسلمانوں اور کفاروں کے درمیان جنگ ہوا کرتی تھی تو زیادہ تر کفاروں کی طرف سے فوج کے سپہ سالار حضرت خالد بن ہی ہوا کرتے تھے
کیوں کہ یہ فوج میں سب سے زیادہ مہارت رکھا کرتے تھے
جب جنگ احد کے موقع نبی علیہ السلام نے مسلمانوں کی فوج میں سے کچھ صحابہ کو ایک پہاڑی کے راستے پر یہ کہہ کر کھڑا کردیا تھا
کہ چاہے مسلمان فوج جیتے یا ہارے لیکن تم لوگوں کو اس پہاڑی کے راستے سے نہیں ہٹنا ہے
کیونکہ وجہ یہ تھی کہ وہ پہاڑی ایسی جگہ پر تھا کہ مکہ کے کفاروں کی فوج اگر چاہتی تو اُس پہاڑے کے پیچھے کے راستے سے آکر حملہ کرسکتے تھے
لہذا اسی وجہ سے نبی علیہ السلام نے اُس پہاڑی پر چند صحابہ کو کھڑا کردیا تھا تاکہ کافر ادھر سے کسی بھی صورت میں حملہ نہ کرسکیں
بہت خطرناک جنگ ہوئی مسلمانوں نے گنتی میں کم ہونے کے باوجود بھی مکہ کے کفاروں کو دھول چٹا دی
لیکن اللّٰہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا
جن چند لوگوں کو نبی علیہ السلام نے پہاڑی کے راستے پر کھڑا کیا تھا اُن لوگوں نے جب دیکھا کہ
مسلمان جنگ جیت گئے ہیں تو اُن لوگوں میں سے بھی زیادہ تر لوگوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور میدان میں آکر خوشی منانے لگے
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خالد بن ولید جو کافروں کی فوج میں شامل تھے اور جنگ میں بھی بہت زیادہ مہارت رکھا کرتے تھے
اُنہوں نے اپنے چند لوگوں کے ساتھ مل کر اُس پہاڑی والے راستے سے مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کیا
یہ اتنا خطرناک حملہ تھا کہ مسلمانوں کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوگیا
خالد بن ولید نے اپنی تلوار سے لگاتار کئی صحابہ کو شہید کر ڈالا
اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری جنگ کا نقشہ بدل کر رہ گیا وہ جنگ جو مسلمان جیت چکے تھے اب اُن کی ہار میں بدل چکی تھی
اور یہ سب ہوا تھا حضرت خالد بن ولید کی مہارت کی وجہ سے جو اُسوقت کفار تھے اور کفاروں کی طرف سے لڑرہے تھے
حضرت خالد بن ولید کے قبول اسلام سے قبل بھی حضور ﷺ اُن کو بہت پسند فرماتے تھے
جب حضور کے سامنے حضرت خالد کی تعریف کی جاتی تو آپ فرماتے یہ خصوصیات جس شخص میں ہونگی وہ ضرور اسلام قبول کرے گا
جس طرح اپنے حضرت عمر کے بارے میں دعا فرمائی تھی اُسی طرح حضرت خالد کے بارے میں آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ وہ اسلام قبول کرلیں
آخر یہی ہوا 8 ہجری میں فتح مکہ سے پہلے حضرت خالد حضرت عمر بن العاص اور حضرت عثمان بن طلحہ کے پاس تشریف لائے اور اسلام قبول کرلیا
تب نبی علیہ السلام نے خوشی کے ساتھ ارشاد فرمایا اے لوگو! مکہ نے اپنے جگر گوشہ تمہارے دامن میں ڈال دیئے ہیں
حضرت خالد بن ولید کے قبول اسلام کے کچھ عرصے بعد ہی غزوہ موتہ لڑی گئی
نبی علیہ السلام نے حضرت زید بن حارثہ کو سپہ سالار بنایا اور فرمایا اگر زید شہید ہوں تو جعفر سپہ سالار ہوں گے اگر جعفر شہید ہوں تو عبد اللّٰہ بن رواہ سپہ سالار ہوں گے
اور ان کی شہادت کے بعد فوج جسے جاہے سپہ سالار بنائے
یہ نصیحت کرکے حضور نے لشکر کو روانہ کیا اور حضور ﷺ اپنے چند صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھ گئے
ایک طرف شام میں جنگ ہورہی تھی اور دوسری طرف حضور مسجد نبوی میں بیٹھ کر اپنے صحابہ کو جنگ کا حال بتا رہے تھے
آپ نے فرمایا لو دیکھو جنگ شروع ہوگئی اب میرا زید شہید ہوگیا پھر کچھ دیر بعد فرمایا اب میرا جعفر شہید ہوگیا یہ بیان فرماتے ہوئے آپکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے
کیونکہ زید حضور کے منہ بولے بیٹے ٹھے اور جعفر آپ کے چچا حضرت ابو طالب کے بیٹے تھے
حضرت جعفر کی شہادت کے بعد آپ نے فرمایا اب جنگ کا جھنڈا میرے عبد اللّٰہ بن رواحہ نے اٹھا لیا ہے اور گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے کچھ دیر بعد پھر آپ نے فرمایا
اب میرا عبد اللہ بن رواحہ بھی شہید ہوگیا ہے
اور اب مسلمانوں نے مل کر صلاح مشورہ سے خالد بن ولید کو سپہ سالار چن لیا ہے
یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت خالد بن ولید مسلمانوں کی قیادت کررہے تھے کیوں کہ اس سے پہلے وہ کافر ہوا کرتے تھے
لہذا جب اسلام کا جھنڈا خالد بن ولید کے ہاتھ میں آیا تو  ROMAN EMPIRE کی آدھی ہمت حضرت خالد بن ولید کو دیکھ کر ہی ٹوٹ گئی تھی
کیوں اُس وقت کہ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ مکہ کے مشرکین میں خالد نام کا ایسا جنگجو موجود ہے
جو اپنے سامنے کسی کو نہیں ٹکنے دیتا ہے
اس جنگ میں حضرت خالد بن ولید نے بہترین جنگی حکمت عملی سے 20 ہزار سے زائد سپاہیوں کے لشکر کو شکست دی
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ حضور ﷺ شام میں ہونے والی اس جنگ کا حال مدینہ میں بیٹھ کر بیان فرما رہے تھے اور رو رہے تھے
تو جب حضرت خالد بن ولید نے اپنی بہادری سے اُس جنگ کو فتح کرلیا تو حضور نے تمام صحابہ کے سامنے خوش ہوکر حضرت خالد کو ایک نیا نام دیا
اور وہ نام تھا سیف اللہ اور حضور نے فرمایا اب مسلمانوں کی فوج کی زمداری سیف اللہ کے ہاتھ میں ہے سیف اللّٰہ کا مطلب ہوتا ہے اللّٰہ کی تلوار
حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید کی زیر کمان
مسلمانوں کا لشکر فتوحات کے ڈنگے بجا رہا تھا
اسی سلسلے میں شہر ہیرا کے باغیوں کی شرارت اور عہد شکنی کی خبر پاکر حضرت خالد بن ولید نے شہر ہیرا کا رخ کیا
مجاہد اسلام کے آنے کی خبر پاکر اہل ہیرا اپنے قلعوں میں جاکر چھپ گئے
حضرت خالد بن ولید نے سب قلعوں کا چاروں طرف سے محاصرہ کرلیا اور کئی روز تک قلعوں کو گھیرے میں رکھا
اور لڑائی اس لیے نہیں چھیڑی کہ شاید یہ لوگ راہ راست پر آجائیں
لیکن جب یہ لوگ نہ مانے تو حضرت خالد نے حملہ کرکے شہر پر قبضہ کرلیا
قبضہ ہوجانے کے بعد عمرو بن مسیح جو کہ نہایت بوڑھا شخص تھا اپنے قلعہ سے باہر آیا
مسلمانوں نے اُسے خالد بن ولید کے سامنے پیش کیا
بوڑھے کے ساتھ جو خادم تھا اس کے پاس سے زہر کی پوریہ نکلی
اس پر حضرت خالد نے پوچھا کہ زہر اپنے ساتھ کیوں لائے ہو
اس پر اس نے جواب دیا کہ اس خیال سے کہ اگر تم نے میری قوم کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو میں اسے کھا کر مرجاؤں گا
تاکہ اپنی قوم کی ذلت و تباہی نہ دیکھ سکوں
حضرت خالد نے پوریہ سے زہر نکال کر اپنی ہتھیلی پر رکھا اور اسے کہا
بے وقت موت کوئی نہیں مرتا اگر موت کا وقت نہ آیا ہو تو زہر بھی کچھ اثر نہیں کرسکتا
یہ کہہ کر حضرت خالد نے وہ ذہر بسم اللّٰہ پڑھ کر کھالیا
اس بوڑھے نے خدا پر اعتماد کا یہ منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا
عمرو بن مسیح کی زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکل پڑا کہ جب تک تمہاری شان کا تم میں ایک شخص بھی موجود ہے تم اپنے مقصد میں ناکام نہیں رہ سکتے
حضرت خالد کی یہ کتنی بڑی خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش سو جنگیں لڑیں لیکن ان تمام جنگوں میں کسی ایک بھی جنگ میں شکست نہیں کھائی
جنگ یرموک میں دشمن کی ساٹھ ہزار فوج کے مقابلے کے لیے حضرت خالد صرف ساٹھ ہزار مجاہد لے کر نکلے اور اس شان سے فتح حاصل کرتے ہیں
کہ دشمن پیٹھ پھیر کر دیکھنے کی بھی ہمت ںہیں کرتا
جنگ موتہ میں مسلمانوں کی تعداد تین ہزار تھی رومی ایک لاکھ سے اوپر تھے
پھر حضرت خالد نے ایسے وقت میں فوج کی کمان سنبھالی تھی
کہ جب حضرت زید بن حارثہ حضرت جعفر طیار اور حضرت عبداللہ بن رواحہ تین سالاروں کی شہادت کے باعث مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے تھے
لیکن انہوں نے اپنی سجاعت اور بے مثال قابلیت سے ایک لاکھ رومیوں کو شکست دی
حضرت خالد بن ولید نے مدینہ میں وفات پائی آپ بستر علالت پر اکثر فرماتے تھے کہ
میں نے بے شمار جنگوں میں حصہ لیا کئی بار بار اپنے آپ کو ایسے خطروں میں ڈالا کے جان بچانا مشکل نظر آتا تھا
لیکن شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی میرے جسم پر کوئی ایسا حصہ نہیں
جہاں تلوار یا تیر کے زخم کا نشان ہو لیکن افسوس موت نے مجھے بستر پر دبوچ لیا
لیکن میدان کارزار میں شہادت نصیب نہ ہوئی
اس پر لوگوں نے کہا حضور نے آپکو سیف اللہ یعنی اللّٰہ کی تلوار کا خطاب عطا فرمایا ہے
اگر آپ کسی کے ہاتھ سے مارے جاتے تو اسکا یہ مطلب ہوتا کہ ایک دشمنِ خدا نے اللّٰہ کی تلوار کو توڑ ڈالا جو ناممکن ہے
یہ سن کر آپکو کچھ اطمینان نصیب ہوا اسلام کا کا یہ بہادر سپاہی یہی حسرت لیے اللّٰہ کو پیارا ہوگیا
حضرت خالد کی وفات کے بعد جب اُن کے اثاثوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ نے ایک غلام ایک گھوڑا اور چند ہتھیاروں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا
جب حضرت عمر کو حضرت خالد کی وفات کی خبر ملی تو آپ بے حد غمگین ہوئے اور فرمایا
مسلمانوں کو ایسا نقصان پہنچا ہے جسکی تلافی ناممکن ہے حضرت خالد ایسے سپہ سالار تھے کہ شاید ہی اُن کی کوئی جگہ لے سکے وہ دشمن کے لیے مصیبت تھے
ایک دن حضرت عمر نے حضرت خالد کی والدہ کو دیکھا کہ بیٹے غم میں ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی حضرت عمر نے دریافت کیا یہ کون بی بی ہے
جو اس قدر کمزور اور پریشان ہے
لوگوں نے عرض کیا کہ یہ خالد بن ولید کی والدہ ہیں
حضرت عمر نے فرمایا خوش قسمت ہے وہ ماں جس کے بطن سے خالد جیسا بیٹا پیدا ہوا