حضرت علی کی پیدائش 13 رجب سن 30 عام الفیل کو جمعہ کے روز مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے

نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے خود آپکا نام علی رکھا

حضرت علی چھ برس کی عمر سے ہی حضور ﷺ کی پرورش اور تربیت میں آگئے تھے

جب رسول اللّٰہ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ کے سبھی لوگ آپ کے اخلاق کو دیکھ کر مسلمان ہونے لگے

لیکن عرب میں ابھی کچھ علاقے ایسے تھے جہاں مسلمانوں پر ظلم ہورہا تھا

اُن علاقوں میں خیبر ایک ایسا علاقہ تھا جس پر مشرک اور کفار فخر کیا کرتے تھے

اسی کو دیکھ کر اللّٰہ کے نبی 1565 اصحاب کو اپنے ساتھ لیکر خیبر کی طرف روانہ ہوئے

جب مسلمان خیبر پہنچے تو خیبر کے لوگ اپنے قلعے پر کھڑے ہوکر زور زور سے ہنسنے لگے

اور کہنے لگے اے محمد کیا آپ ان مٹھی بھر  لوگوں کے ساتھ خیبر کو فتح کرنے آئے ہو

اور کیا آپ مرحب کی تلوار اور حارث کی طاقت سے واقف نہیں

اس کے بعد اللّٰہ کے نبی نے اپنی نظروں کو اُٹھایا اور فرمایا اے اپنی چھوٹی شان پر غرور کرنے والوں ہم یہ خیبر کا قلعہ چالیس دن میں فتح کرلیں گے

مسلمانوں کو اللّٰہ کے نبی کی بات پر پورا بھروسہ تھا اور اسی لیے وہ لوگ خیبر کے قلعے کے پاس خیمے لگا کر رہنے لگے

جب یہ سب خیبر والوں نے دیکھا تو اُنہوں نے کہا چلو ان مٹھی بھر مسلمانوں کا کیا وجود انہیں ابھی مردیتے ہیں

تبھی مرہب نے کہا نہیں رُکو انکے نبی نے کہا ہے کہ وہ چالیس دن میں ہمارا قلعہ فتح کرلیں گے دیکھتے ہیں یہ چالیس دن میں کیا کرتے ہیں

اور اگر چالیس دن میں قلعہ فتح نہ کرپائے تو ہم کہیں گے انکا نبی بھی جھوٹا اور انکا دین بھی جھوٹا

لہذا روز اصحاب علم لیکر قلعہ کی طرف جاتے تو شور سنتے کے بھاگو مرہب آرہا ہے یہ سُن کر ہر مسلمان واپس چلا آتا

یہ سب دیکھ کر یہودی اپنے قلعے پر چڑھ کر زور زور ہنستے یہاں تک 39 واں دن بیت گیا

اور مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کا سارا سامان ختم ہوگیا

مسلمان بھوک سے تڑپ رہے تھے اور بار بار نبی کریم ﷺ سے کہتے اے اللّٰہ کے رسول اس خیبر کو فتح کرنا ناممکن ہے

اُن کے پاس مرہب ہے جس سے کوئی جیت سکتا

یہ سب دیکھ کر اللّٰہ کے نبی نے فرمایا کل چالسواں دن ہے کل میں علم اُس کو دوں گا جو اس قلعہ کو فتح کرے گا اور مرہب کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرے گا

اگلے ہی دن اللّٰہ کے نبی نماز فجر کے بعد اصحاب سے پوچھتے ہیں علی کہاں ہیں

اصحاب نے کہا حضرت علی کی آنکھوں میں درد ہے اور وہ اس وقت مدینہ میں ہیں

نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللّٰہ کی طرف سے خبر ملی ہے علی انقریب ہی ہمارے ساتھ ہوں گے اور اللّٰہ کا حکم ہے کہ اس قلعہ کو علی ہی فتح کریں گے

بس پھر کیا تھا حضرت علی کا نام سنتے ہی مسلمانوں کے مرجھائے ہوئے چھرے پھر سے کھلنے لگے

حضرت علی آپ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے اور فرمایا کہ اے اللّٰہ کے رسول کیا حکم ہے اس غلام کے لیے

اللّٰہ کے نبی نے حضرت علی کی طرف مسکرا کر دیکھا حضرت علی آنکھیں بے انتہا درد میں تھی

اس کے بعد اللّٰہ کے نبی نے اپنا لعاب دہن حضرت علی کی آنکھوں میں ڈالا اس لعاب دہن کی برکت سے حضرت علی کی آنکھوں کو شفاء مل گئی

اس کے بعد اللّٰہ کے نبی نے حضرت علی سے فرمایا اے علی یہ لو علم اور اس خیبر کے قلعے کو فتح کرکے آؤ

یہ سنتے ہی حضرت علی خیبر کے قلعہ کی طرف روانہ ہوئے

حضرت علی کو خیبر کے قلعے کی جانب آتا دیکھ کر خبیر کے قلعے پر چڑھ کر یہودی یہ کہنے لگے

اے نوجوان کیوں اپنی موت کو بلاتا ہے جا چلا جا ورنہ مرہب تجھے قتل کردے گا

اتنے میں مرہب کے بھائی حارث نے مرہب سے کہا کہ روکو اس کو تو میں قتل کروں گا اور حارث اپنی تلوار لیکر باہر آیا اور کہا اگر بھگنا چاہو تو بھاگ جاؤ

تبھی حضرت علی نے فرمایا نہ میں بھاگنے نہ آیا ہوں اور نہ ہی کسی قتل کرنے ہم تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ تم بے وجہ مسلمانوں پر ظلم بند کردو

اسی بیچ حارث نے حضرت علی پر وار کردیا لیکن آپ نے حارث کے وار کو بڑی آسانی سے ناکام کردیا اور ایک ہی وار میں حارث کو واصل جہنم کردیا

جب مرہب نے اپنے بھائی ٹکڑے دیکھے تو غضہ میں تلوار لیکر باہر نکلا اور غرور میں کہنے لگا

کہ زمین خیبر کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج اُسکے سینہ پر مرہب آیاہے

میری ماں نے میرا نام مرہب رکھا ہے جس سے موت بھی ڈرتی ہو

تبھی دوسری طرف حضرت علی فرماتے ہیں زمین خیبر ہو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے وہ شیر جو سب کو چیر دے

اس کے بعد مشرکوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ مرہب اسے قتل کردو اسے مار دو

کہتے ہیں جب مرہب نے اپنی تلوار سے حضرت علی پر پہلا وار کیا

اُس کے اس وار کو حضرت علی نے ڈھال سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہی ناکام کردیا


اس کے اُس نے دوسرا وار کیا اُس کو بھی حضرت علی نے پھر سے ناکام کردیا

مرہب نے لگاتار ایک کے بعد ایک کُل تین حملہ حضرت علی پر کیے اور اُنہوں نے اسکے تینوں حملوں کو بڑی آسانی سے ناکام کردیا

کہا جاتا ہے اسکے بعد حضرت علی مرہب پر پلٹ کر وار کیا جسکا سامنا مرہب نہیں کرسک

اور یہودیوں کے اس سب بڑے سورما کا جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا

مرہب کو مرتا دیکھ کر چاروں طرف اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کی صدائیں بلند ہونے لگیں

حضرت علی کو قلعہ کی جانب بڑھتا دیکھ کر مشرک خیبر کے قلعہ کے دروازے کو بند کرنے لگے

کہا جاتا ہے خیبر کے قلعے کا دروازہ اتنا مضبوط تھا کہ جسے چالیس ہاتھی اور چالیس اونٹ مل کر بند کیا کرتے تھے

لیکن حضرت علی نے اپنے ایک ہاتھ سے خیبر کے دروازے اکھاڑ کر پھینک دیا

اور آخرکار اسطرح خیبر کی ناممکن سی دکھنے  والی فتح بھی مسلمانوں کی جھولی میں آگری

مرہب کو پچھڑنا اور در خیبر کو اپنے ایک ہاتھ سے اکھڑنا یہ حضرت علی کی طاقت ع بہادری کا چھوٹا سا نمونہ ہے

اسکے علاوہ اور بھی درجنوں ایسے موقع آئے جن میں حضرت علی نے ہاری ہوئی جنگوں کو جیت میں تبدیل کردیا